ایک دن لاہور کے اولڈ ھاؤس میں ♥️
چار سال پہلے جامعہ پنجاب جو کی پاکستان کے بہت ہی خوبصورت شہر ، شہر لاہور میں واقع ہے میں قدم رکھا۔ میرے قریب گلگت بلتستان جیسے جنت کے ٹکڑے سے دور لاہور جانا کسی بڑی آزمائش سے کم نہیں تھا۔ لاہور میں بالکل الگ قسم کے لوگ، الگ قسم کے طور طریقے ، الگ قسم کے کھانے اور بہت ساری چیزیں جن کا زندگی میں پہلی مرتبہ سامنا کرنا پڑا۔ چار سال پہلے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ آج لاہور سے اتنی محبت ہو جائے گی کی لاہور سے دور جانے کا سوچ کر ہی دل منہ کو آتا ہے۔ ہاسٹل کی سہیلیوں اور department کے دوستوں نے کبھی گھر سے دور ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا۔ شہر لاہور کی اپنی رنگینیوں نے دل جیت لیا۔
مجھے سوشل ورک کا بہت شوق ہے، جہاں کہی کوئی موقع ملتا ہے میں پہنچ جاتی ہو، اسی سوشل سروس کے دوران ایک جگہ سے واقفیت ہوئی جس نے میرے سارے وجود کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ دن شاید شہر لاہور میں واحد دن تھا جس نے مجھے میرے گھر والوں کے بہت قریب کر دیا۔ اور وہی وہ دن تھا جب مجھے اپنے گھر والوں کی بہت یاد آئی تھی دادی، دادا، ابو امی اور سارے خاندان کی۔
دراصل ہم کسی فاؤنڈیشن کے لیے کام کر رہے تھے۔ کوئی 500 کے قریب غریب بچوں کو تعلیمی اخراجات فراہم کرنے کے بعد ہم Lahore social welfare complex پہنچے ، جب گیٹ کے اندر داخل ہوئے تو وہاں کا ماحول کافی صاف نظر آ رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جسے کوئی housing society ہو۔ اوسی دوران میری نظر ایک بورڈ پر پڑی جس پر تمام معلومات لکھی ہوئی تھی، جیسے کہ nasheeman , school, old home, MR house اور بہت کچھ لکھا ہوا تھا۔
ہم لوگوں نے اولڈ ہاؤس کا راستہ پکڑا ، میں خوشی خوشی ان والدین سے ملنے جا رہی تھی جن کے بچوں نے ان کو اس عمر میں بے سہارہ کر دیا تھا۔ لیکن جب دروازے پر پہنچی تو میرا دل جواب دے گیا، مجھ سے آندر نہیں جایا گیا۔ لیکن بڑی مشکل سے دل کو سنبھالنے کے بعد آندر چلی گئی۔ اندر داخل ہوتے ہی میری نظر اولڈ ہاؤس کے اوپر اور نیچے کے صحن پر پڑی جہاں کوئ اخبار پڑ رہے تھے تو کوئی باتوں میں مشغول تھے۔ اس لمہے میرے دماغ میں ایک ہی بات چل رہی تھی کہ زندگی میں بہت سارے بچوں کو یتیم ہوتے دیکھا ہے، مگر وہ تو اللّٰہ تعالیٰ کی آزمائش ہے مگر اس دن والدین کو اپنے ہی بچوں کے ہاتھوں یتیم ہوتے دیکھا۔
ان سب کی باتوں میں ایک عجیب قسم کا درد تھا، ہمارے سامنے مسکرا رہے تھے مگر ان کی آنکھوں میں چھپے آنسوؤں سب بیان کر رہے تھے۔
ہمارے معاشرے میں مرد کو بڑا مظبوط سمجھا جاتا ہے ، شاید یہی وجہ تھی کہ وہ سب ہنسی مذاق میں وقت گزار رہے تھے۔ میں نے ایک انکل سے پوچھا کہ آپ کیا کام کرتے تھے، انہوں نے بتایا کہ وہ سرکاری ملازم تھے اور پھر میں نے ساتھ ہی پوچھا کہ پھر تو آپ کی پنشن تو آتی ہو گی لیکن انکل کے جواب نے تو مجھے حیران کر دیا، ان انکل کے بیٹے نے ان کو گھر سے نکال دیا تھا اور اب کوئی پتہ تک نہیں پوچھتا مگر اس انکل نے اپنی پنشن اس بیٹے کے نام کی ہوئی تھی وہ بھی خوشی خوشی۔
اتفاق سے اس دن ساری دنیا میں ماؤں کا عالمی دن منایا جا رہا تھا، میری تو ایک عجیب کیفیت تھی کیونکہ ابھی ان ماؤں سے ملنا تھا، جنھوں نے اپنے بچوں کو 9 مہینے پیٹ میں رکھا ، بڑا کیا لکین آج انہی بچوں نے اپنی زندگی سے نکال دیا۔
جب ایک ماں سے ملی تو انہوں نے بتایا کہ وہ صبح سے اپنے بچوں کا انتظار کر رہی ہیں مگر ابھی تک کوئی نہیں آیا، بس پھر کیا تھا ان کی یہ بات سن کر میرے آنکھوں میں چھپے آنسوؤں نے جواب دے دیا اور بس میں نے وہاں سے جلدی نکلنے کی کوشش کی۔ وہ سارا دن ان والدین کے ساتھ گزارا۔ اس سارے اولڈ ہاؤس میں ایک couple بھی تھا۔ جب ان کے کمرے میں گیے تو انکل آنٹی جگھڑ رہے تھے۔ ہم جب روم میں پہنچے تو انکل آنٹی نے ایک دوسرے کی بڑی شکایتیں لگائی اور آنٹی نے fridge سے نکال کر fruits کھلائے۔ کچھ وقت ان کے ساتھ گزار کر وہاں سے نکل گئے۔ اب کبھی کبھی وہاں کا چکر لگاتی ہو اور وہاں کے لوگ اپنے سے لگتے ہیں۔ ایک انکل کو کتاب پڑھنے کا شوق ہے، انکل نے عمران خان پر لکھی کتاب لانے کا کہا تھا مگر اس کے بعد وہاں کا چکر نہیں لگا ، اب انشاللہ لاہور جا کر پہلے ان کے پاس جاؤنگی۔ آج بڑے دنوں بعد یہ لکھ رہی ہوں مگر ابھی بھی وہ اپنے بچوں کے لئے منتظر آنکھیں یاد آ رہی ہیں، جو اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کب ان کے بچے آ جائے اور ان کو ساتھ لے جائے۔
خدا کے لیے اپنے والدین کا بہت سارا خیال رکھیں۔ ان کی کوئی بات نہ ٹالے جتنا ہو سکے ان کو خوش رکھے۔
خدا حافظ۔
اللّٰہ نگہبان 🤲🏻
بہت اچھے بہت خوب الفاظ کا چناؤ زبردست مجھے بھی وہ سارا وقت یاد آگیا وہ لمحات واقعی بہت تکلیف دہ تھے ہر کسی کی آنکھ میں ایک الگ درد اک الگ تکلیف خدا ہر بچے کو والدین کا خیال رکھنے کی توفیق دے آمین
ReplyDeleteWell written respect your parents❤❤
ReplyDelete