جس کو جانا ہی نہیں اس کو خدا کیوں مانے اور جسے جان گئے ہو وہ خدا کیسے ہو

 کافی دنوں کے  بعد آج قلم اور کاغذ اٹھانے کا اتفاق ہوا ھے۔ آپ اس بات پہ حیران ہونگے کہ آج کل تو سب کچھ بند ھے ، کچھ کرنے کو نہیں ھے, لیکن جو خواتین و حضرات جامعات میں زیر تعلیم ہیں ان کو معلوم ہو گا کہ آن لائن کلاسس نے طلبہ و طالبات کو پڑھائی سے زیادہ ذہنی مریض بنا رکھا ھے۔  ساری رات سہانے سپنوں میں گزار کر  صبح  آنکھ کھلتے ہی فون کی سکرین پر نظر پڑتی ہے تو اساتذہ کرام کی طرف سے بہت سارا کام دیا ہوتا ہے۔ دراصل میرے پاس انٹرنیٹ کا مسئلہ ہے. سارا دن نکل جاتا ہے ایک عدد فائل کھلنے میں۔  


ایک بات جو  کچھ دن پہلے ہوئی  لیکن ابھی تک میرے ذہن سے نہیں نکل رہی. میں ایک روز اپنے کمرے میں بیٹھے اپنا کام کر رہی تھی، باہر صحن میں ہمارے گھر کے بچے کھیل رہے تھے۔ اتنے میں ایک بچی نے دوسری بچی سے بہت ہی پریشان کرنے والا سوال پوچھ لیا. وہ کہ رہی تھی کہ یار " یہ اللّٰہ تعالیٰ اکیلے رہتے ہیں کیا ان کو ڈر نہیں لگتا؟" اصل میں جس بچی نے یہ سوال کیا تھا وہ کوئی چار سال کی ہے اور اس کو بارش اور آندھی سے بے انتہا ڈر لگتا ہے۔  اتنے میں ، میں اپنا کام چھوڑ کر ان کی گفتگوں سننے لگی۔ جیسے ہی اس کا سوال ختم ہوا دوسری بچی کا جواب آیا "یار وہ جماعت خانے کی کتاب میں لکھا ہوا تھا کہ یہ ساری دنیا اللّٰہ تعالیٰ نے بنائی ہے تو شاید ان کے پاس خود کو ڈرانے کے لئے کوئی چیز نہ ہو"۔ پھر اس کے جواب کے بعد پہلی بچی بولی " اللّٰہ تعالیٰ تو ہر جگہ موجود ہیں۔ یہ بھی لکھا ہوا ہے نا اس کتاب میں، اور اسی کے ساتھ اس نے آر ای سی کی سبز رنگ کی کتاب جو KG کے بچوں کے لیے ہے, سے ایک کہانی سنائی جس میں ذکر تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ جو بارش ہوتی ہے، رات کو اندھیرا چھا جاتا ہے، طوفان آتے ہیں تو اللّٰہ تعالیٰ کیسے اکیلے رہتے ھونگے ، ہمیں تو امی بچاتی ہیں"۔ ان کی گفتگوں ابھی اختتام کو نہیں پہنچی تھی کہ 

کسی نے ان کو آواز دی اور وہ چلے گئے، اور وہ گفتگوں ادھوری رہ گئی۔

 

مجھے مطالعہ کا بہت شوق ہے اور ساتھ ہی صاحب علم لوگ جہاں بھی مل جاتے ہیں ، ان کے ساتھ بیٹھ جاتی ہوں۔ اگر بات کرنے کا موقع ملا تو بول لیتی ہوں, لیکن زیادہ خوشی یوں ہوتی ہے کہ ایسی محفل میں صاحب علم کو سنوں اور کچھ حاصل کروں۔

مجھے ایک بات کی بے حد خوشی ہے کہ قرآن مجید با ترجمہ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ جب قرآن مجید ترجمے سے پڑھتے ہیں تو کئی جگہوں پر ہیبت سے دل حلق  تک پہنچ جاتا ہے، ایک مسلمان ہونے پر فخر ہوتا ہے، کہیں پہ یہ ساری دنیا  چھوڑ کر کسی دور پہاڑی پر جا کر بس خدا کا ذکر کرنے کا دل کرتا ہے، کہیں بس اپنے والدین کے قدموں میں بیٹھ کر ساری زندگی گزارنے کا دل کرتا ہے اور کہیں ساری زندگی بس نماز، قرآن مجید اور ذکر وفکر میں گزارنے کا دل کرتا ہے۔ قرآن مجید کے بعد جس علاقے سے میں تعلق رکھتی ہوں وہاں کی رنگینیاں اور قدرتی وسائل دیکھ کر اللّٰہ تعالیٰ کی ذاتِ مبارک کا شکر کرتی رہتی ہوں۔ کیا خوبصورت صبح ہوتی ہے ، ان پہاڑی علاقوں میں، مگر افسوس یہ کمبخت نیند کئی سالوں سے یہ صبح کا منظر دیکھنے کو نہیں ملا ، جب کبھی غلطی سے آنکھ اگر کھل جائے تو کیا کمال کا منظر ہوتا ہے۔ ایک طرف پہاڑ ، پہاڑوں پر وہ برف کی چادر ، وہ ہر طرف ٹھنڈے اور نیلے پانی کی نہریں  اسی دوران اگر بارش ہو رہی ہو تو پھر منظر تو بالکل  فلموں جیسا ہوتا ہے جن کو دیکھ کر ہم کسی اور دنیا میں چلے جاتے ہیں۔ بس ایسی بہت ساری چیزیں ہیں جن کو دیکھنے اور سمجھنے کے بعد ہم اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتے۔ 

قرآن مجید میں بہت ساری جگہوں پر غور وفکر کی بات کی  گئی ہے۔ اس غور وفکر کی وجہ سے سائنسدانوں نے خلاؤں تک جا کر اس کائنات کو بہت حد تک دریافت کر لیا ہے۔ اسی حوالے سے ایک شاعر خوب فرماتے ہیں، 

مجھے اب ہوش آتا جا رہا ہے خدا تیری خدائی جا رہی ہے

پس انسان جب غور وفکر کر لیتا ہے تو بہت کچھ پا لیتا ہے۔  اسی کے ساتھ گزشتہ دنوں کچھ کتابیں پڑھی تھی جن میں اس کتاب کے مصنف نے بڑی خطرناک باتیں تحریر کی تھیں۔ اس نے لکھا تھا کہ جب انسان غور وفکر کر کے اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کے بہت قریب پہنچ جاتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اس کو ختم کر دیتا ہے۔ اسی کے ساتھ اس کتاب میں ایک اور بات لکھی ہوئی تھی،  بلکہ وہ تو ہم سب پڑھتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تب تک جہاد کروں جب تک کفار جڑ سے ختم نہ ہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ایک انسان کی جان بچانا گویا ساری انسانیت بچانا.... ایسی ہی بہت ساری باتیں جب زہن میں آتی ہیں تو ذہن میرا ساکن ہو جاتا ہے۔  ایک اور شاعر فرماتے ہیں


جس کو جانا ہی نہیں اس کو خدا کیوں مانے

اور جسے جان گئے ہو وہ خدا کیسے ہو 


میں رات کو اسی شعر کو سوچ رہی تھی ، اسی دوران ایسی تیز بارش ہوئی کہ اللّٰہ تعالیٰ سے مدد مانگی۔ دیکھے نا انسان بھی کتنا خود غرض ہے اور میں تو سوچتی ہوں کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم پر ہنستے ہونگے ، جب ہم پر اچھا وقت آتا ہے تو ہم اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ یہ وقت رک جائے اور جب مشکل وقت آتا ہے تو ہم خود اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ یہ وقت جلدی گزر جائے۔ آہ یہ بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔  

مجھے یاد ہے ، مجھے بارش بہت پسند تھی ، کیا خوب نیند آتی تھی۔ بس 2016 میں اپریل کی وہ بارش شاید  ساری زندگی نھیں بھول سکتی ۔ 2016 سے پہلے بس امی اور دادی اماں سے ہی بڑے خطرناک سیلابوں کا سنا تھا اور اپریل کی ایک صبح 72 گھنٹے سے زیادہ بارش کے برسنے کے بعد ایسا سیلاب آیا ، مجھے یاد ہے آزان کا وقت تھا ابو جماعت خانہ گئے ہوئے تھے اور اسی دوران پہاڑ سے زور کی آواز آئی اور لوگوں کی آوازیں کانوں میں پڑی۔ سارا شیرقلعہ جسے ہل رہا ہوں۔  اس دن جن لوگوں کے گھر سیلاب کی زد میں آئے تھے ان کو دیکھ کر پتہ نہیں مجھے کیا صدمہ لگا کہ اب تک نہیں گیا۔  بس اب جب کبھی بارش ہوتی ہے تو دل میں عجیب سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور ساری رات ڈر میں گزر جاتی ہے۔  بس پھر یہی بارش مجھے اس عنوان سے دور کر دیتی ہے۔  مزے کی بات یہ ہے کہ اس وقت بھی باہر بارش ہو رہی ہے، دل منہ کو آیا ہوا ہے ، سارا جسم جیسے جم سا گیا ہو۔ 

بس اب اجازت چاہتی ہوں ، آپ سب سے پھر ملاقات ہو گی۔ انشاللہ 

خدا خافظ اللہ نگہبان🤲🏻



Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Cost Free Bachelor in Urban Sustainability Studies in Europe ( Fully Funded university Fee)

Cricket Unites- Pakistan Welcomes the World

Fully Funded Erasmus Mundus Program (Multiphase Systems for Sustainable Engineering)